11-02-2021 E paper
10-02-2021 E paper
09-02-2021 E paper
گاڑیوں کی خریداری کیلئے قرضوں کے حصول میں 19فیصد اضافہ
کم شرح سود اور لاک ڈاؤن کے بعد معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے سبب گاڑیوں کی خریداری کیلئے قرضوں کے حصول میں دسمبر2020کے دوران 19فیصد اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر2020کے دوران ٹرانسپورٹ اور کاریں خریدنے کیلئے حاصل کئے گئے قرضوں کا حجم 256ارب روپے تک بڑھ گیا جبکہ دسمبر2019 میں اس مد میں 215ارب روپے کے قرضہ جات حاصل کئے گئے تھے۔اسی طرح دسمبر2019 کے مقابلے میں دسمبر 2020کے دوران ٹرانسپورٹ کی خریداری کیلئے حاصل کردہ قرضوں میں 41ارب روپے یعنی 19فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 1300سی سی اور اس سے بڑی گاڑیوں کی خریداری کیلئے قرضہ حاصل کرنے کی طلب میں اضافہ بھی قرضوں کے حصول میں بڑھوتری کا ایک سبب ہے ۔ مرکزی بینک نے کہا ہے کہ حال ہی میں متعارف کرائی گئی 1300سی سی اور اس سے بڑی گاڑیوں کی طلب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کے نتیجے میں بھی قرضوں کا حصول بڑھا ہے ۔ شرح سود میں کمی سے گاڑیاں خریدنے والے صارفین کو کم ماہانہ اقساط ادا کرنی ہوتی ہیں۔ دوسری جانب گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود صارفین نئی گاڑی خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے قرضوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
بھارتی اداکار نفسیاتی مریض بننے لگے، ایک اور ایکٹر نے پھندا لگا کر خودکشی کرلی
بھارتی فلم انڈسٹری کے اداکاروں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہونا شروع ہو چکے ہیں، آئے روز خبریں ملتی ہیں کہ کسی نہ کسی اداکار نے خود کشی کر لی ہے۔ حالیہ واقعہ میں بھی نوجوان اداکار تیلگو اداکار نے خود کو پھندا لگا لگا لیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سری واستو چندراسکیر نفسیاتی مسائل کا شکار تھے۔ وہ گھر سے شوٹنگ کرنے کا کہہ کر گئے لیکن اپنی دوسری رہائشگاہ پر جا کر خود کو پنکھے سے لٹکا لیا۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ اداکار سری واستو چندراسکیر کا نفسیاتی مسائل کی وجہ سے علاج بھی چل رہا تھا۔ نوجوان اداکار کی اچانک موت کی خبر پر بالی ووڈ فلم انڈسٹری پر ایک مرتبہ پھر سکتہ طاری ہو چکا ہے۔
آئینی ترمیم کیلئے تحریک انصاف کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ارکان کی خرید وفروخت بند ہونی چاہیے، اپوزیشن بتائے وہ منڈی کیوں لگانا چاہتی ہے؟ آئینی ترمیم کیلئے تحریک انصاف کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں، سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا، تسلیم کریں گے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اوپن بیلٹ کی کوشش کر رہے ہیں۔ پورا پاکستان جانتا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں خریداری ہوتی ہے۔ پچھلی بار بھی اراکین کو خریدنے کی منڈی لگائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ضمیر کے خریداروں کی منڈی بند ہونی چاہیے۔ جو جس پارٹی کے نشان پر منتخب ہو کر آئے، وہ ان ہی کو ووٹ دیں۔ یہ صرف تحریک انصاف کا موقف نہیں بلکہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں بھی لکھا ہوا ہے۔ جب تمام پارٹیاں اوپن بیلٹ کا کہہ چکی ہیں تو اب اس سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہیں؟ وزیر خارجہ نے کہا کہ کچھ اراکین کا خیال تھا کہ اس مسئلے پر آئینی ترامیم ہونی چاہیے لیکن ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں، ہم سپریم کورٹ میں چلے گئے ہیں اور وہ آئین کی تشریح کرکے بتائیں گے۔ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہم اس کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔ انہوں نے کہا سینیٹ ایک ایسا ادارہ جو وفاق کی علامت ہے۔ سینیٹ میں ہر مسئلہ کو اٹھانا چاہیے۔ سینیٹ وفاق کی مضبوطی کی علامت ہے۔ اس وقت بہت سی طاقتیں پاکستان میں دہشتگردی کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ بہت سی طاقتیں پاکستان میں دہشت گردی اور انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ سینیٹ کے نومنتخب اراکین اور سینیٹ کا ایوان ملک دشمن قوتوں کو شکست دینے کے لئے معاون ثابت ہوگا۔
الیکشنز ایکٹ میں ترمیم، پیپلز پارٹی نے آرڈیننس آئین پر حملہ قرار دیدیا
پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشنز ایکٹ میں ترمیم آرڈیننس کو آئین اور پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے خود آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ کراچی میں سینیٹر شیری رحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ یہ کابینہ ملک کے آئین سے کھیل رہی ہے۔ یہ کابینہ نابینا ہے جو آئین نہیں پڑھ سکتی۔ فرض کریں اگر الیکشن آرڈیننس کے تحت ہو جاتے ہیں اور آرڈیننس منسوخ ہو جاتا ہے تو پھر پورا الیکشن ہی کالعدم ہو جائے گا۔ میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت کسی ادارے کو تو چھوڑ دے۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کرا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جواب میں کہا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی الیکشن آئین کے تحت ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک آئینی ترمیم نہ ہو، اوپن بیلٹ سے الیکشن نہیں کروا سکتے۔ اب حکومت نے الیکشن کمیشن کو بھی سپریم کورٹ کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر قانون سازی کرنا تھی تو پھر سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس کیوں بلایا؟ آرڈیننس کی زندگی صرف 120 دن تک ہے۔ پارلیمان کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے سینیٹ الیکشن کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں لیکن پہلی شرط یہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا ہو۔ یہ آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے۔ رضا ربانی نے الزام عائد کیا کہ آرڈیننس کو لا کر محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی قانون سازی اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں شیری رحمان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے اپوزیشن سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ یہ پارلیمان کو آرڈیننس فیکٹری بنا چکے ہیں۔ اب یہ عدالت پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں۔ شیری رحمان کا کہنا تھا کہ پارلیمان اس معاملے پر بحث کر سکتی تھی۔ تاہم حکومت نے اپنے ہاتھوں آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ لگتا ہے ان کے اپنے اراکین اسمبلی ان کیساتھ نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے اور راتوں رات آرڈیننس جاری کر دیا گیا۔ یہ آئین اورپارلیمان پر حملہ ہے۔